احمد دیدت اور مسلمانوں کی الجھن

This post is also available in: English عربى (Arabic) Indonesia (Indonesian) Deutsch (German)

 

پس منظر
(2005 -1918)بیسوی صدی کے بااثرمسلم مبلغ اور مناظرین میں سے تھے ۔ انھوں نے 1957اسلامی اشاعت کے ادارے کی بنیاد رکھی۔انکی تصانیف اور مناظرے آج بھی پوری دنیا میں گردشِ اشاعت میں ہیں۔ دیدت صاحب کی طریقیات اور دلائل نے اکیسویں صدی کے اہم مسلم مناظرین کو بھی متاثر کر رکھا ہے۔ایک مصنف کے مطابق ’’دیدت صاحب تدریجی اعتبار سے ممتاز عالم و مفکر کی شرائط کو بمشکل پورا کرتے ہیں۔ لیکن ان کی تاثیر کسی بھی تربیت یافتہ دانشور سے بڑھ کر ہے۔۔۔‘‘0


شیخ احمد دیدت 2005 -1918

اگرچہ دیدت صاحب کا قادیانیت سے کو تعلق واسطہ نہ تھا لیکن انکے دلائل اور مناظرے کا طرز و طریق احمدیوں جیسا تھا۔ مثلاً یسوع کو صلیب پر لٹکایا گیا لیکن انھوں نے صلیب پر وفات نہیں پائی۔ دیدت صاحب کے دلائل نے جان گل کرسٹ کے ساتھ ایک مناظرے کے دوران دلچسپ لیکن پُر فکرخیال کا رخ اختیار کر لیا۔
جان گل کرسٹ نے مبینہ طور پر مسلم حاضرین سے پوچھا:

ہم نے احمد دیدت صاحب کے اسلامی نقطہ ء نظر کے بارے میں سنا ہے۔لیکن پہلے میں یہ پوچھنا چاہوں گا کہ : کیا آپ اس سب پر یقین رکھتے ہیں جو احمد دیدت صاحب نے کہا؟(حاضرین چلاتے ہوئے: جی ہاں)
آج رات میں تمام مسلمان حاضرین سے پوچھنا چاہوں گا کہ وہ واقعی جو کچھ دیدت صاحب کہتے ہیں اسکا یقین کرتے ہیں؟(حاضرین با آوازِ بلند: جی ہاں)، اور آپ قرآن مجید کا یقین نہیں کرتے؟(جی ہاں؟!)
میں چاہوں گا کہ حاضرین میں موجود کوئی بھی مسلمان مجھے یہ بتائے کہ کیا قرآن مجید میں یہ نہیں لکھا کہ مسیح کو کبھی بھی صلیب پر نہیں لٹکایا گیا تھا بلکہ انکی جگہ کسی اورکو سُولی چڑھایا گیا۔کیا میں درست نہیں کہہ رہا؟ کیا قرآن مجید میں نہیں لکھا کہ خدا تعالیٰ نے انکوزندہ اوپر بلا لیا؟ اور کیا قرآن مجید میں نہیں لکھا کہ خداتعالیٰ نے انکی حفاظت کی؟ کیا قرآن مجید میں یہ نہیں لکھا کہ خدا نے مسیح کا ایک ہمشکل بنایا؟ کیا قرآن کے مطابق اس شخص کو سُولی نہیں چڑھایا گیا؟آپ کس کا یقین کریں گے؟ قرآن مجید کا یا دیدت صاحب کا؟ (حاضرین: قرآن مجید کا)۔

قرآن اور دیدت کے دلائل میں تضاد کو جان لینے کے بعد:

۔۔۔ مسلمانوں کے اتنے بڑے مجمع پر سناٹا چھا گیااور شکست کے آثار نمایاں تھے جسکو وہ قبول کرنے کیلئے تیار نہ تھے۔ وہی لوگ جو اپنی دیوانگی میں چلا چلا کر احمد دیدت کے درست ہونے کی تائید کررہے تھے اور پھر جب قرآن نے حقیقت سے پردہ اٹھایا تو چلائے کہ قرآن کی گواہی درست ہے۔ درحقیقت یہ دیدت صاحب کے مصلوبیت کے دلائل پر یقین کرنے کے بعد انکی شرمندگی کا اظہار تھا۔ 1

دیدت صاحب کا یقین تھا کہ بائبل مقدس من گھڑت اور افسانہ ہے۔ اور پھر اپنے ہی من گھڑت تفسیری دلائل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ وہ اور دنیائے اسلام اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ: یسوع المسیح کوصلیب پر غش تاری ہوگیا تھا۔ دیدت صاحب نے شاید ایسے مسلمانوں کو قائل کرنے کی کوشش کی جنھوں نے خود کبھی بائبل مقدس کو نہیں پڑا۔تاہم مسیحی نقطہء نظر سے دیدت صاحب کی تفسیرخیالی، مبہمل اور اکثر تو بدنیتی کی مثال ہیں۔

سید الکمنی، جو کہ مصری مصنصف ہیں، نے سعودی ٹیلی وژن پرکہا کہ دنیائے اسلام ’’۔۔۔مسیحی(بھائیوں)کے ایمان کے تعلق سے کچھ نہیں جانتے سوائے ان باتوں کہ جو قرآن اور حدیث میں موجود ہیں۔ ہم مسیحیوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے‘‘۔ (مزید پڑھنے کیلئے اس لنک پر کلک کریں) Muslims and their Knowledge About Christianity)۔ یہ بہترین موقع ہوگا ایسے مسلمان دوستوں سے پوچھنے اور چیلنج کرنے کا کہ اگر انکی مسیحیت کے بارے میں معلومات کا ماخذ قرآن، حدیث، دیت صاحب کی تصانیف یا پھر کسی اورمسلم مناظر کی کتب ہیں تو یہ نہایت بڑی غلطی کا باعث ہوگا۔ انھیں دعوت دیں کہ وہ مسیحیت کو جاننے کیلئے بائبل مقدس کا مطالعہ کریں اور مسیحی نقطہء نظر کو سمجھیں۔

مسلم بھائیوں کی طرف سے ای میلز:

ان باکس

مضمون: احمد دیدت اور مسیحیت

ایرن کے نام:
آپکی طرف سے فوری جواب حاصل کرکے خوشی ہوئی۔ مسلم مفکر احمد دیت، جو کہ بائبل اور مسیحیت کے ماہر ہیں، نے جسطرح ان دو مضامین کے بارے میں تفصیل سے مباحثہ پیش کیا ہے، میں اس تعلق سے میں دو ویب سائٹ لنکس تجویز کررہا ہوں جنکا تعلق بائبل اور مصلوبیت سے ہے(مصلوبیت: حقیقت یا افسانہ اور کیا بائبل خدا کا کلام ہے؟)۔مصنف نے بائبل اور مسیحیت کے تیس سالہ مطالعہ کرنے کے بعد یہ دو کتب تحریر کیں۔ میں اس شخص سے مل چکا ہوں۔ چند سال پہلے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔

    جواب
احمد دیدت اور مسیحیت(مسیحی نقطہء نظر سے)

ایرن کی جانب سے                  کوجواب

     سلام و آداب،
اس سے پہلے کہ میں دیدت صاحب پر مباحثہ کروں۔ میں آپ سے آپکے شخصی خیالات کے بارے میں جاننا چاہوں گا جو کہ آپ کے ذاتی مطالعہ کا نتیجہ ہیں۔ کیا آپ مندرجہ ذیل سوالات کا جواب دینا پسند کریں گے؟

اگر یسوع المسیح مصلوب نہیں ہوئے تو پھر کون ہوا تھا؟ اگر یہ درست نہیں ہے تو مسیحی کیوں صدیوں سے اس بات پر ایمان رکھتے ہیں؟کیا مسیح کی مصلوبیت تاریخی حقیقت نہیں ہے؟ میرے علم کے مطابق مسیح کے اپنے زمانہ اور اسکے بعد چند نسلوں تک یہ مسئلہ موجود نہیں تھا۔کیا یہ درست بات نہیں؟ پروٹسٹنٹ، کیتھولک اور آرتھوڈاکس مسیحی فرقے کئی باتوں پر ایک دوسرے سے اتفاق نہیں کرتے۔ لیکن جہاں تک سوال مسیح کی مصلوبیت کا ہے تو اس پر تمام فرقے یک رائے ہیں۔ قرآن مجید کا یقین کیوں کیا جائے جو اس واقعہ کے کئی صدیوں بعد وجود میں آیا؟مسیح کی مصلوبیت سے انکار کی منطق سمجھ سے قاصر ہے۔ اور اس تاریخی واقعہ کو رد کرنا مزید پیچدگیوں کا موجب ہوگا۔
آپکا اس بارے میں کیا خیال ہے؟
ایرن

مضمون: میرے مسلم بھائی کا جواب
ایرن کے نام:

.1 اگر دیدت صاحب جیسے پائے کا عالم آپکو نہیں اکسائے گا تو اور کوئی بھی ایسا نہیں کریگا؟
.2 تاریخ کے مطابق انانجیل کی تصنیف مسیح کے بعد تین سو سال بعد ہوئی۔ کیونکہ مسیحی رومیوں کے زیرِ تسلط ایذا رسانی اور دباؤسے گزر رہے تھے۔
.3 انانجیل کے کئی قدیم نسخہ جات ہیں جبکہ بائبل کے تقریباً 73مختلف ترجمے موجود ہیں۔ ان میں سے کونسا ترجمہ مستند ہے اور کیوں؟
.4 چودہ سو سال سے قرآن کا صرف ایک ہی ترجمہ موجود ہے۔ اس میں بائبل کی طرح تبدیلی یا رد و بدل نہیں ہے۔اگر آپ قرآن کا مطالعہ کریں تو آپ محسوس کریں گے کہ یہ مقدس ہے اور اگر آپ عربی ہیں تو الہٰی لمس کو محسوس کریں گے۔ دوسری طرف اگر آپ بائبل کا مطالعہ کریں توآپ محسوس کریں گے کہ بائبل کے کئی حصے عام آدمیوں نے تحریر کیے۔ اور کئی حصے توہماتی اورفحش ہیں۔ مثال کے طور پر لوط کی کہانی کو پڑھیں اسکی بیٹیوں نے اسے شراب پلائی اور اسکے کیلئے بچے پیدا کیے۔ اسکے علاوہ رتھوں کے بارے میں، عضو تناسل کے غلاف، اور آدمیوں کے نطفہ کے بارے میں۔ اسکے علاوہ یعقوب کی آسمان پر خداسے کشتی کے بارے میں پڑھیں۔ اسکے علاوہ داؤد کے زبوراور اور اپنی محبوبہ کی چھاتیوں کے اور ٹانگوں کے بارے میں تفصیل، اور پھر انکی اپنے ایک سپاہی کی برہنہ بیوی کا قصہ۔ تمہیں اپنی آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے بھائی! جس کتاب میں اس طرح کی باتیں لکھیں ہوں وہ مقدس کتاب نہیں ہوسکتی۔
.5 ہم قرآن اور اس میں جو کچھ لکھا ہے اسے مستند مانتے ہیں۔ اس میں لکھا ہے کہ مسیح کو مصلوب نہیں کیا گیاتھابلکہ انکے کسی ہمشکل کو۔ وہ بھی اس لئے کیونکہ مصلوبیت کا واقعہ رات کو پیش آیا۔
ویسے قرآن میں یہ بھی لکھا ہے کہ مسیح قیامت سے پہلے دوبارہ واپس آئیں گے اور دنیا میں انصاف قائم کریں گے۔ اور ہم اس پر یقین رکھتے ہیں کیونکہ قرآن اللہ کا کلام ہے۔۔۔
میں دوبارہ کہوں گا کہ آپ احمد دیدت صاحب کی (مصلوبیت: حقیقت یا افسانہ اور کیا بائبل خدا کا کلام ہے؟)ان کتابوں کا مطالعہ صبر و تحمل اور محتاط انداز سے کریں۔ آپ سے یہ بھی گزارش ہے کہ آپکا رویہ غیر متعصب اور معروضی ہو۔

جواب
(اپنے دوست کی تباین کی نشاندہی کرتے ہوئے)
منجانب: ایرن گومر

             کے نام:
آداب و سلام،
آپکے جوابات کا شکریہ۔ مجھ سے جتنا ممکن ہو سکامیں اس بات کیلئے رضامند ہوں کے میں غیر متعصب اور معروضی رویہ اختیار رکھوں گا۔ کیا آپ بھی اس بات کا عہد کرنے کیلئے تیار ہیں؟ میں ایسی سنجیدہ گفتگو کیلئے تیار ہوں جو بدکلامی ، افسانہ گری، اور تعصب سے پاک ہو۔ میں خود کو ایسی گفتگو کیلئے مختص کرتا ہوں جس کا مقصدصرف ان سوالات کا جواب دینا ہے جو مجھ سے پوچھے جائیں نا کہ کسی دوسری ویب سائٹ سے کاٹ چھانٹ کر اکتساب پیش کرنا اورحوالے پیش کرنا ہو۔ اگر میں یہ ثابت کردوں کہ قرآن مسیح کی مصلوبیت کے تعلق سے غلطی پر ہے توکیا آپ سنجیدگی اور دُعائیہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اسلام چھوڑ کرمسیحیت کو قبول کرلیں گے؟ دوسری طرف اگر آپ مجھ پر ثابت کردیں کہ مسیح صلیب پر نہیں موئے تو میں اسلام قبول کرنے کو تیار ہوں گا۔

میں دیدت صاحب کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مسیح کی مصلوبیت کو مسیحیت میں خاص اہمیت حاصل ہے۔مختصر یہ کہ ’’اگر مصلوبیت نہیں تو مسیحیت بھی نہیں!‘‘
دیدت صاحب قرآن کے تعلق سے میرے شک کے بارے میں بھی درست ہیں۔ وہ لکھتے ہیں، ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص(محمدؐ)جواس مقام سے ہزاروں میل کے فاصلے پر اور واقعہ کے چھ سو سال بعد یہ فتویٰ دے کہ درحقیقت کیا وقوع ہوا تھا؟‘‘
آغاز میں میں یہی کہوں گا کہ اس میں کوئی غلط فہمی ہے۔ آپ نے میری ہمت افزائی کی کہ میں دیدت صاحب کا مطالعہ کروں۔ جو کہ میں نے کیا۔ کیامیں دیدت صاحب کے مسیح کی مصلوبیت کے دلائل کے تعلق سے میری سمجھ درست ہے؟ دیدت صاحب بحث پیش کرتے ہیں کہ مسیح صلیب کیلئے مقرر تھے لیکن وہ صلیب پر موئے نہیں۔ بلکہ ان پر غش یا بے ہوشی طاری ہوگئی۔ دیدت صاحب کی کتاب(مصلوبیت: حقیقت یا افسانہ) سے مندرجہ زیل اکتسابات پیش خدمت ہیں جس میں دیدت صاحب نے یہ سکھایا کہ حقیقت یا افسانے کا کیا مطلب ہے۔ یعنی مسیح کو رومی صلیب پر لٹکایا گیا لیکن وہ اس پر موئے نہیں۔ ملاحضہ کریں:
’’ یہ یہودی بھی عجیب لوگ ہیں!انکو جس قدر جلدی تھی کہ وہ مسیح کو مصلوب کریں ۔ اورپھر اسی قدر فوراً سے انھیں صلیب سے اتارنے کیلئے بیقرار ہوگئے۔

یہودیوں نے یسوع کو ختم کرنے میں پہلی غلطی کیا کی؟ انکی پہلی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے مسیح کو انکی ٹانگیں توڑے بنا نیچے اتار لیا اس دھوکے سے کہ وہ پہلے ہی انتقال کرچکے ہیں۔اور آخری غلطی یہ کی کہ انھوں نے مسیح کے پوشیدہ شاگردوں کو ایک زخمی شخص کی مدد کرنے دی یعنی قبر پر مہرنہیں لگائی۔

’’پتھر کا لڑکھا ہونا اور کفن کی چادر کے بل کھلے ہونااس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ جسمانی طور پر زندہ ہونا ہے نہ کہ محظ زندہ ہونا!

’’مجھے نہ چھو‘‘ یوحنا 17:20(بائبل مقدس)
کچھ سنجیدہ اور فکر انگیز سوالات
کیوں نہیں؟ کیا وہ بجلی کا ٹرانسفارمر تھے،یا برقی جنریڑ، جسے چھوتے ہی وہ بجلی کا جھٹکا کھا جاتی؟ جی نہیں! مجھے نہ چھو! کیونکہ ایسا کرنے سے انھیں تکلیف ہوگی۔ اگرچہ وہ ظاہری طور پر مستقیم نظر آتے تھے لیکن یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ وحشیانہ ، جسمانی اور جذباتی مرحلے سے گزرے تھے۔ اگر وہ اس قسم کے جذباتی انداز میں چھونے دیتے تو یہ انکے لئے نہایت تکلیف دہ عمل ہوتا۔
اور پھردوسری طرف یہ بھی لکھا کہ قرآن کہتا ہے کہ ’’مسیح کوصلیب نہیں دیا گیا بلکہ انکے کسی ہمشکل کو۔۔۔‘‘
اس لئے کس بات کا یقین کیا جائے؟ کیا یسوع صرف صلیب پر بیہوش ہوگئے( دیدت صاحب کے مطابق جو آپ کی نظر میں ایک جید عالم ہیں)؟۔ یا پھرکوئی مسیح کا ہمشکل مصلوب ہوا(جو کہ آپ کے قرآن کی تعلیم ہے)؟یہ دونوں بیانات مشکوک ہیں کیونکہ ان سے بدنیتی اور بددیانتی کا تاثر ملتا ہے۔ دیدت صاحب کے دلائل کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ خدا نے ناجائز طور پر مسیح کو صلیب کی شرمندگی اٹھانے پر مجبور کردیا۔ اس طرح سے مسیح کے دشمنوں فتح کی تسکین کرنے کا موقع دیا۔ دیدت صاحب کے دلائل اس بات کا تاثر دیتے ہیں کہ مسیح کہ شاگرد دھوکا باز تھے جنھوں مسیح کو دوبارہ ہوش میں لاکر اس بات کا دعویٰ کیا کہ وہ زندہ ہوگئے ہیں۔ آپکے دلائل سے یہ تاثر بھی ملتا ہے کہ خدا نے مسیح کی شبیہ کو بدل کر لوگوں کو دھوکا دیا اور انھیں مسیح پر فتح کی جھوٹی تسکین دلائی۔
دیدت صاحب جو بھی کہیں، مسیحیوں کے مقدس صحائف یہی سکھاتے ہیں کہ مسیح نے صلیب پر جان دی۔ جو کچھ آپ نے لکھا ہے اور جو کچھ دیدت صاحب نے تحریر کیا ہے وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مسیح کی مصلوبیت کے تعلق سے مسلمان غلط فہمی کا شکار ہیں۔ مسلمانوں کی آپس کی غلط فہمی اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ جو کچھ قرآن کہتا ہے وہ درست نہیں کیونکہ اس میں لکھا ہے:
004.157
یوسف علی: انھوں نے کہا(غرور کرتے ہوئے)، ’’ہم نے مسیح یسوع ابن مریم ، اور اللہ کے پیغمبر کو قتل کر ڈالا‘‘، لیکن ان پر یوں ہی ظاہر کیا گیا، لیکن جو اختلاف رکھتے ہیں وہ شک کرتے ہیں،اور علم نہیں رکھتے، بلکہ قیاس کرتے ہیں، یقیناًانھوں نے اسے قتل نہیں کیا۔
پکتھال: اور انکے یہ کہنے کی وجہ سے: ہم نے مسیح، ابن مریم، اللہ کے پیغمبر کو قتل کیا، انھوں نے نہ تو اسے قتل کیا اور نہ ہی مصلوب بلکہ ان پر یونہی ظاہر کیا گیا۔اور دیکھو! جو اختلاف رکھتے ہیں وہ شک میں ہیں۔ وہ علم سے خالی ہیں اور قیاس آرائی پر چلتے ہیں۔یقیناًانھوں نے اسے قتل نہیں کیا۔

شاکر: اور انکا کہنا ہے: یقیناًہم نے مسیح، عیسیٰ ابن مریم، اللہ کے پیغمبر کو قتل کیا۔اور انھوں نے اسے قتل نہیں کیا اور نہ ہی سولی چڑھایا۔لیکن انکو ایسا ہی معلوم ہوا جیسے(عیسیٰ کی طرح کوئی اور)۔ اوریقینی طور پر جو اختلاف رکھتے ہیں وہ شک میں ہیں۔ وہ اسکے بارے میں کوئی علم نہیں رکھتے۔وہ قیاس آرائی پر چلتے ہیں۔ اور یقینی طور پر انھوں نے اسے قتل نہیں کیا۔

سادہ سی بات ہے یہ دعویٰ جھوٹا ہے۔ یہ تاریخی نقطہ ء نظر سے جھوٹا دعویٰ ہے۔ یہاں تک کے غیر مسیحی تاریخدان بھی حیران کن طور پر مسیح کی صلیبی موت پر اتفاق کرتے ہیں۔ یہ اس لئے بھی جھوٹ ہے کیونکہ تمام مسیحی(رومن کیتھولک، آرتھوڈاکس، پروٹسٹنٹ)مسیح کی صلیبی موت سے اتفاق کرتے ہیں۔ اور یہ یقین کرنے کیلئے وضاحت کردوں کہ تمام مسیحی فرقے ہر بات پر اتفاق نہیں کرتے۔ ہم ایسا نہیں کرتے بہت سی باتوں پر ہمارا اتفاق نہیں ہے۔ لیکن ایک بات جس پر سب مسیحی متفق ہیں اور وہ ہے مسیح کی صلیبی موت۔ درحقیقت یہ مسلمان ہیں جو قیاس آرائی پر چلتے ہیں۔ یہ مسلمان ہیں جن کے پاس یقینی طور پر علم نہیں ہے۔ یہ مسلمان ہیں جو مسیح کی مصلوبیت کے تعلق سے شک میں ہیں۔

 

 

Footnotes

  1. .ڈیوڈ ویسٹرلینڈ، ’’احمد دیدت کی مذہب کے بارے میں تعلیم الہٰی: ایمان کا دفاع بالمناظرہ‘‘۔ جرنل آف ریلجن ان افریقہ ، 33(3) 2003.
    David Westerlund, “Ahmed Deedat’s Theology of Religion: Apologetics through Polemics.” Journal of Religion in Africa, 33(3) 2003. []
  2. (2 ) مسلم ڈائجسٹ ، مارچ 1977’’دیدت ان بیلنسDeedat In Balance‘‘میں اکتساب؛ http://answering-islam.org/Responses/Deedat/deedat.html;اس ویب سائٹ کو مئی 2010میں کھولا گیا []